ہومٹرینڈنگجنرل (ر) احسان الحق کا انکشاف: عبدالسلام ضعیف کو پاکستان نہیں بلکہ...

جنرل (ر) احسان الحق کا انکشاف: عبدالسلام ضعیف کو پاکستان نہیں بلکہ افغانستان نے امریکا کے حوالے کیا

Advertisement

پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ کشیدگی کے تناظر میں ایک پرانا مگر حساس معاملہ ایک بار پھر منظرعام پر آ گیا ہے۔ پاکستان کے سابق انٹیلی جنس چیف جنرل (ر) احسان الحق نے انکشاف کیا ہے کہ طالبان کے سابق سفیر عبدالسلام ضعیف کو امریکا کے حوالے پاکستان نے نہیں بلکہ "ان کے اپنے ہم وطنوں” نے کیا تھا۔

یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کے کئی ادوار جاری ہیں، اور ایک دوسرے پر الزامات کی نئی لہر دیکھنے میں آ رہی ہے۔

Advertisement

عبدالسلام ضعیف کا ردعمل

جنرل (ر) احسان الحق کے اس بیان کے بعد طالبان کے سابق سفیر عبدالسلام ضعیف نے فوری طور پر اس مؤقف کو مسترد کر دیا۔ ضعیف کا کہنا ہے کہ انہیں 2001ء میں پاکستانی حکام نے براہ راست امریکی افواج کے حوالے کیا تھا، اور اس واقعے کے گواہ خود پاکستانی سیکیورٹی اداروں کے اہلکار تھے۔

Advertisement

انہوں نے کہا کہ "یہ دعویٰ تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش ہے، مجھے اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا اور بعد میں امریکی تحویل میں دے دیا گیا۔”

پس منظر: ضعیف کی گرفتاری اور حوالگی کا واقعہ

عبدالسلام ضعیف طالبان حکومت کے دور میں پاکستان میں افغانستان کے سفیر کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔ 2001ء میں جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تو طالبان حکومت ختم ہو گئی، اور ضعیف پاکستان میں مقیم رہے۔

چند ماہ بعد انہیں پاکستانی حکام نے گرفتار کیا، اور بعد ازاں انہیں امریکی فوج کے حوالے کر دیا گیا۔ ضعیف نے بعد میں اپنی قید کے دوران کے حالات پر ایک کتاب بھی لکھی، جس میں انہوں نے پاکستان کے کردار پر شدید تنقید کی تھی۔

جنرل (ر) احسان الحق کا مؤقف

جنرل (ر) احسان الحق کا کہنا ہے کہ "یہ تاثر غلط ہے کہ پاکستان نے عبدالسلام ضعیف کو امریکا کے حوالے کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ افغان حکام نے خود انہیں امریکیوں کے حوالے کیا تھا۔”

انہوں نے مزید کہا کہ اُس وقت پاکستان کی پالیسی امریکا کے ساتھ انسدادِ دہشت گردی کے تعاون پر مبنی تھی، تاہم اس معاملے میں پاکستان نے براہِ راست کردار ادا نہیں کیا۔

یہ بیان پاکستانی اور افغان حلقوں میں نئی بحث کا آغاز کر چکا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات تناؤ کا شکار ہیں۔

Also read :پاکستان کرکٹ ٹیم چھاتی کے سرطان سے آگاہی مہم کے تحت گلابی کٹ میں میدان میں اُترے گی

موجودہ حالات میں اس بیان کی اہمیت

یہ بیان محض ایک تاریخی وضاحت نہیں بلکہ ایک سیاسی تناظر بھی رکھتا ہے۔ حالیہ استنبول مذاکرات میں افغانستان کی جانب سے پاکستان کے "جائز مطالبات” کو تسلیم نہ کرنے پر اختلافات بڑھے ہیں۔

پاکستانی وفد کے قریبی ذرائع کے مطابق، افغانستان نے کئی اہم نکات پر تعاون سے انکار کیا ہے، جب کہ پاکستانی مؤقف کو "امن کے لیے ناگزیر اور منطقی” قرار دیا گیا ہے۔

جنرل (ر) احسان الحق کا بیان اسی پس منظر میں دیکھا جا رہا ہے، جو بظاہر پاکستان کے مؤقف کو تقویت دینے کی کوشش کے طور پر سامنے آیا ہے۔

افغان ردعمل اور خطے کی صورتحال

افغان میڈیا اور تجزیہ کاروں نے اس بیان کو "تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش” قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق پاکستان، امریکا کے ساتھ اس وقت قریبی اتحاد میں تھا، اور اس نے طالبان کے کئی رہنماؤں کو گرفتار یا امریکی افواج کے حوالے کیا۔

دوسری جانب پاکستانی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ الزامات اب سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں اور دونوں ممالک کو ماضی کے بجائے مستقبل پر توجہ دینی چاہیے۔

تجزیہ: ماضی کی غلطیاں یا سیاسی حکمتِ عملی؟

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ضعیف کی حوالگی جیسے واقعات نے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات پر دیرپا اثرات چھوڑے ہیں۔ تاہم، حالیہ بیانات اور جوابی مؤقف یہ ظاہر کرتے ہیں کہ دونوں ممالک اب بھی ایک دوسرے پر اعتماد قائم کرنے میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔

پاکستانی حکام اس وقت افغان طالبان کے ساتھ کئی حساس امور پر مذاکرات کر رہے ہیں، جن میں سرحدی سیکورٹی، دہشت گردی کے خطرات، اور تجارتی راہداریوں کے معاملات شامل ہیں۔

اگرچہ جنرل (ر) احسان الحق کا بیان تاریخی وضاحت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، لیکن اس کے سیاسی اثرات موجودہ حالات میں خاصی اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔

نتیجہ

عبدالسلام ضعیف کی گرفتاری اور حوالگی کا واقعہ دو دہائیوں پرانا ضرور ہے، مگر اس کے اثرات آج بھی پاک-افغان تعلقات پر سایہ فگن ہیں۔ ایک طرف جنرل (ر) احسان الحق کے انکشاف نے ماضی کے کردار پر نئے سوالات اٹھا دیے ہیں، تو دوسری جانب ضعیف کی تردید نے اس بحث کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔

یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بداعتمادی کی دیوار ابھی مکمل طور پر نہیں گری، اور دونوں ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ ماضی کے زخموں پر مرہم رکھ کر مستقبل کی سمت بڑھیں۔


ڈسکلیمر:
یہ خبر مختلف معتبر ذرائع اور دستیاب رپورٹس کی بنیاد پر پیش کی گئی ہے۔ قارئین کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ تازہ ترین اور تصدیق شدہ معلومات کے لیے سرکاری یا مستند نیوز پلیٹ فارمز سے رجوع کریں۔

ریلیٹڈ آرٹیکل

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

سب سے زیادہ مقبول

urاردو