ہومٹرینڈنگبیوی نے شوہر کو بتایا نامرد، طلاق کیلئے پہنچ گئی عدالت —...

بیوی نے شوہر کو بتایا نامرد، طلاق کیلئے پہنچ گئی عدالت — ہائی کورٹ نے کیا فیصلہ دیا؟

Advertisement

اکثر عدالتوں میں طلاق کے مقدمات مختلف وجوہات کی بنیاد پر آتے ہیں، لیکن حالیہ دنوں میں ایک دلچسپ اور حساس کیس سامنے آیا، جس میں ایک خاتون نے اپنے شوہر کو "نامرد” قرار دے کر عدالت میں طلاق یا خلع کی درخواست دائر کی۔ معاملہ صرف ذاتی اختلاف تک محدود نہ رہا بلکہ اسلامی فقہ، معاشرتی اصولوں، اور عدالتی کارروائی کے کئی پہلو اس کیس میں اجاگر ہوئے۔ بالآخر یہ معاملہ ہائی کورٹ تک پہنچا، جہاں قانون اور شریعت دونوں کی روشنی میں فیصلہ سنایا گیا۔

پس منظر: نامردی کی تعریف اسلامی تناظر میں

اسلامی فقہ میں "نامرد” (جسے عربی میں "عنین” کہا جاتا ہے) اُس شخص کو کہا جاتا ہے جو جنسی تعلق قائم کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو، خواہ وہ پیدائشی ہو، جسمانی یا نفسیاتی بیماری کی وجہ سے ہو، یا کسی حادثے یا دوا کے نتیجے میں۔

Advertisement

فقہی اصولوں کی روشنی میں اہم نکات

  1. نکاح کے بعد علم ہو: اگر بیوی کو بعد میں معلوم ہو کہ شوہر جنسی طور پر معذور ہے اور وہ اس پر راضی نہیں، تو بیوی کو خلع یا تفریق (شرعی علیحدگی) کا حق حاصل ہے۔
  2. جماع کا ثبوت: اگر شوہر ایک مرتبہ بھی جماع کر چکا ہو، تو خلع کا جواز کچھ فقہی مکاتب میں محدود ہو جاتا ہے۔
  3. پہلے سے لاعلمی: اگر نکاح سے پہلے بیوی کو شوہر کی اس کمزوری کا علم نہ ہو، تو اسے مکمل طور پر قانونی و شرعی حق حاصل ہے کہ وہ نکاح ختم کروانے کی کوشش کرے۔

کیس کی تفصیلات

بیوی کا مؤقف

– بیوی نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ اُس کا شوہر ازدواجی تعلق قائم کرنے کے قابل نہیں، اور یہ بات اُسے نکاح کے بعد معلوم ہوئی۔
– بیوی نے عدالت سے استدعا کی کہ اسے شوہر سے خلع یا طلاق دی جائے، کیونکہ وہ اپنی ازدواجی زندگی سے مطمئن نہیں۔

Advertisement

عدالتی کارروائی

– عدالت نے شوہر کو طلب کیا، لیکن اس کی عدم حاضری یا عدم تعاون کے باعث کیس یکطرفہ طور پر سنا گیا۔
– بیوی کی جانب سے طبی شواہد، بیانات اور شوہر کی عدم رضامندی کو بنیاد بناتے ہوئے عدالت نے اسلامی قوانین کے مطابق کارروائی کی۔
– بیوی نے مؤقف اختیار کیا کہ اگر شوہر قابل علاج ہے تو عدالت اسے علاج کے لیے وقت دے، بصورت دیگر نکاح کو ختم کر دے۔

ہائی کورٹ کا فیصلہ

ہائی کورٹ نے اس کیس کو شریعت اور قانون دونوں زاویوں سے پرکھا۔

اہم نکات

  1. رضامندی کے بغیر خلع یا طلاق؟
    عدالت نے واضح کیا کہ اگر شوہر خلع یا طلاق پر رضامند نہ ہو، تو بیوی یکطرفہ خلع نہیں لے سکتی، بلکہ قاضی یا عدالت کے ذریعے تفریق کی ضرورت ہوتی ہے۔
  2. عدالت بطور قاضی
    اسلامی قوانین کے تحت، اگر شوہر طلاق دینے سے انکار کرے، اور بیوی ثابت کر دے کہ شوہر ازدواجی زندگی کے تقاضے پورے نہیں کر سکتا، تو عدالت بطور قاضی تفریق کا حکم جاری کر سکتی ہے۔
  3. درکار شواہد
    عدالت نے کہا کہ صرف دعویٰ کافی نہیں؛ طبی معائنہ، ماہرین کی رائے، اور دیگر شواہد سے یہ بات ثابت ہونی چاہیے کہ شوہر واقعی ازدواجی تعلق قائم کرنے سے قاصر ہے۔
  4. ایک سال کی مہلت
    بعض فقہی آراء کے مطابق، اگر شوہر قابل علاج ہو تو عدالت ایک سال کی مہلت دے سکتی ہے۔ اگر اس دوران علاج سے افاقہ نہ ہو، تب عدالت نکاح ختم کر سکتی ہے۔

اسلامی فقہ میں تفریق اور خلع

اسلامی قانون میں دو الگ الگ راستے موجود ہیں:

  • خلع: اگر بیوی شوہر سے علیحدگی چاہے اور شوہر رضامند ہو، تو مالی معاوضے کے بدلے خلع ہو سکتا ہے۔
  • تفریق: اگر شوہر رضامند نہ ہو اور بیوی کے پاس معقول شرعی جواز ہو (جیسے نامردی، ظلم، خرچ نہ دینا)، تو قاضی کے ذریعے نکاح ختم کیا جا سکتا ہے۔

قاضی کے سامنے شرطیں

قاضی یا عدالت تفریق کا فیصلہ تبھی کرتی ہے جب درج ذیل شرائط پوری ہوں:

  • بیوی کی جانب سے واضح اور مستند شواہد پیش کیے جائیں۔
  • شوہر کی معذوری ثابت ہو جائے یا وہ عدالت میں تعاون نہ کرے۔
  • بیوی واضح طور پر ازدواجی تعلقات سے نالاں ہو۔

نتائج اور سفارشات

نکتہوضاحت
بیوی کی شکایتجنسی کمزوری یا نامردی، 6 ماہ یا زائد کی شکایت
شوہر کی حالتقابلِ علاج یا ناقابلِ علاج
بیوی کی لاعلمینکاح سے پہلے اس کمزوری کا علم نہ ہونا
فقہی اختیارقاضی کے ذریعے تفریق یا شوہر کی رضامندی سے خلع
عدالتی شرطیںشواہد، طبی رپورٹس، اور شوہر کا مؤقف
نکاح کی حیثیتاگر شرعی طریقہ نہ اپنایا جائے تو نکاح برقرار

قانونی اور شرعی احتیاطیں

  1. عدالتی منظوری ضروری: طلاق یا خلع صرف اس وقت شرعی طور پر نافذ ہوگی جب وہ قاضی یا عدالت کے ضابطوں کے مطابق ہو۔
  2. یکطرفہ فیصلہ غیر مؤثر: صرف زبانی الزامات پر شوہر کو نامرد قرار دے کر نکاح ختم نہیں کیا جا سکتا۔
  3. خاتون کے حقوق محفوظ: اسلامی شریعت عورت کے بنیادی حقوق کی ضامن ہے، اور اگر وہ ازدواجی زندگی سے مطمئن نہ ہو تو شرعی طریقے سے علیحدگی کا حق رکھتی ہے۔

اختتامی کلمات

یہ مقدمہ ہمارے معاشرے میں ازدواجی تعلقات، ان کے مسائل، اور ان کے حل کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ ایک طرف بیوی کا حق ہے کہ وہ خوشگوار ازدواجی زندگی گزارے، تو دوسری طرف شوہر کو بھی اپنی حالت کے مطابق صفائی کا حق ہے۔ اس کیس نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا کہ شرعی قوانین، اگر درست طریقے سے سمجھے جائیں اور عدالتی نظام اس پر عمل کرے، تو ہر فریق کو انصاف مل سکتا ہے۔

بیوی اگر شوہر کی جنسی کمزوری کو معتبر ثبوت کے ساتھ عدالت میں ثابت کرے، تو وہ تفریق یا خلع کا حق رکھتی ہے۔ تاہم، یہ علیحدگی صرف قاضی یا عدالت کی اجازت اور مکمل شواہد کی بنیاد پر ہی شرعی و قانونی طور پر تسلیم شدہ ہوگی۔

ریلیٹڈ آرٹیکل

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

سب سے زیادہ مقبول

urاردو