ہومٹرینڈنگلاہور کے جنرل اسپتال میں خواتین کی میتوں کا مردوں سے پوسٹ...

لاہور کے جنرل اسپتال میں خواتین کی میتوں کا مردوں سے پوسٹ مارٹم کروانے کا انکشاف

Advertisement

لاہور کے معروف طبی ادارے جنرل اسپتال لاہور کے مردہ خانے میں اس ہفتے ایک سنگین انکشاف سامنے آیا ہے، جس نے طبی ضابطہ اخلاق، انسانی حقوق اور مریضوں کے لواحقین کے اعتماد کو جھٹکے میں ڈال دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق، خواتین کی میتوں کا پوسٹ مارٹم مرد عملے کے ذریعے کیا گیا، اور اس دوران لیڈی ڈاکٹر یا لیڈی میڈیکل آفیسر کی موجودگی نہ ہونے کا بھی معاملہ سامنے آیا ہے۔

کیا ہوا؟

تفصیلات کے مطابق، ایک فوٹیج وائرل ہوئی ہے جس میں ایک خاتون کی میت مرد عملے کے زیرِ نگرانی پوسٹ مارٹم ہو رہی تھی، جبکہ مرد ڈاکٹر یا لیڈی میڈیکل افسر موجود نہیں تھے۔ طبی اصولوں کے مطابق، خواتین کی لاش کا پوسٹ مارٹم لیڈی ڈاکٹر یا لیڈی میڈیکل آفیسر کی موجودگی میں ہونا ضروری ہے، تاکہ عزتِ امراء اور سماجی حساسیت کا لحاظ رکھا جا سکے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اسپتال انتظامیہ نے اس اصول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پوسٹ مارٹم کا سلسلہ جاری رکھا۔

Advertisement

مزید یہ ہے کہ اس عمل کی نگرانی کرنے والا مرد عملہ تربیت یافتہ نہ تھا اور طبی معائنے و پوسٹ مارٹم کے حساس مرحلے میں اس کی مصروفیت سوالیہ ہے۔

Advertisement

ذمہ دار کون؟

اس واقعے پر اقدام کے طور پر، جنرل اسپتال کی انتظامیہ نے تحقیقات کے لیے پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ اسی کے ساتھ، پنجاب کے صوبائی وزیرِ صحت نے بھی اس معاملے کا نوٹس لیا ہے۔

اس کے ممکنہ اثرات

  • اس واقعے نے اسپتال کے نظام میں اخلاقی اور قانونی خلا کی نشاندہی کی ہے، جہاں مردہ خانے کے حساس مرحلے میں ضابطہ عمل کی خلاف ورزی ممکن ہوئی۔
  • لواحقین کی اعتماد میں زلزلہ آیا ہے، خاص طور پر خواتین کی لاشوں کی عزت و احترام کے حوالے سے، جو کہ طبی خدمات کا اہم جزو ہے۔
  • طبی ماہرین اور انسانی حقوق کے ادارے اس پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کہ حکومت اور صحت کے ادارے ضابطہ اخلاق کی ضمانت فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔

ایسا کیوں ہوا؟

ذیل میں ممکنہ وجوہات درج ہیں:

  • لیڈی ڈاکٹرز یا لیڈی میڈیکل آفیسرز کی عدم دستیابی، یا شفٹ کی کمی، جس نے مرد عملے کو حساس معاملات انجام دینے کی راہ دکھائی۔
  • اسپتال انتظامیہ کی جانب سے معیارِ طبی خدمات پر کم توجہ اور پوسٹ مارٹم کے ضابطوں کی خلاف ورزی کا محتمل امکان۔
  • نگرانی کا فقدان، اور مردے کے معائنے کے عمل میں مناسب تربیت یافتہ اسٹاف کی کمی۔

آگے کیا ہونا چاہیے؟

  • اسپتال انتظامیہ کو فوری طور پر پوسٹ مارٹم کے لیے مخصوص ضابطے جاری کرنے چاہییں، جن میں خواتین کی لاشوں کے معائنے کے دوران لیڈی میڈیکل آفیسر یا لیڈی ڈاکٹر کی لازمی موجودگی ضروری ہو۔
  • مردہ خانے میں کام کرنے والے تمام اسٹاف کی تربیت اور تصدیق کی جانی چاہییے، تاکہ حساس معاملات میں انسانی اور طبی ضابطے کی پاسداری ہو۔
  • صوبائی محکمہ صحت کو چاہیے کہ اسپتالوں میں مردہ خانوں کے نظام کی نگرانی کرے اور ضابطے کی خلاف ورزی کی صورت میں ٹھوس کارروائی کرے۔
  • لواحقین کو اس طرح کے عمل کے حقوق اور ضابطوں سے آگاہ کیا جانا چاہییے، تاکہ وہ نسبتاً محفوظ اور شفاف طبی ماحول کا متقاضی بن سکیں۔

ماحصل

یہ واقعہ نہ صرف ایک ادارے میں ضابطہ شکنی کی مثال ہے، بلکہ معاشرتی، اخلاقی اور انسانی حقوق کے مدنظر انتہائی سنگین ہے۔ خواتین کی لاشوں کی میت کی عزت و احتساب کا معاملہ ہے، اور اس نوعیت کے عمل سے اداروں کا اعتماد متزلزل ہوتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ فوری اصلاحات کی جائیں اور ذمہ داران سے جواب طلبی ہو۔

Disclaimer: اس خبر کی معلومات دستیاب رپورٹوں اور معتبر ذرائع کی بنیاد پر پیش کی گئی ہیں۔ قارئین سے گزارش ہے کہ تازہ ترین معلومات کے لیے سرکاری نیوز آؤٹ لیٹس سے رجوع کریں۔

ریلیٹڈ آرٹیکل

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

سب سے زیادہ مقبول

urاردو