Advertisement
یہ وہ قصہ ہے جو ایک نئی دلہن نے سہاگ رات کی صبح پولیس کے سامنے بتایا، اور سب کو دنگ کر دیا۔ ایک عام سی شادی ہوئی، لیکن جیسے ہی سہاگ رات کا وقت آیا، دولہا نے ایک معمولی بات چھپائی رکھی تھی جو رات کے اختتام پر بے نقاب ہو گئی۔
تعارف اور پس منظر
شادی ایک طے شدہ پروگرام کے تحت ہوئی۔ لڑکی نے پہلی دفعہ ملا تھا، محبت یا پسند کی شادی نہیں تھی۔ شادی کے بعد وہ اپنے سسرال پہنچی، جہاں خوش دلی سے استقبال ہوا۔ بارش کی رات میں دولہا نے دلہا و دلہن کی پہلی رات رات کو خصوصی انداز میں گزارنے کا ارادہ کیا۔ لیکن ہر کہانی میں خوشی کے ساتھ کچھ راز بھی چھپے ہوتے ہیں۔
Advertisement
پہلی شام: معمول سے ہٹ کر
رات آہستہ آہستہ قریب آئی، اور دلہن دلہا کے قریب گئی۔ کہتے ہیں اسے ہر کوئی راضی تھا۔ لیکن دلہا نے اسے ہر رات “ڈوائی” لینے پر مجبور کیا۔ وہ پہلی تقریب تھی، اس کے بعد ہر رات دوائی لینا ضروری ہو گیا۔ دلہن چونک گئی—یہ دوائی کبھی محبت کا اظہار، کبھی سکون کے لیے، تو کبھی سرتا کی طرح پیش کی گئی۔
Advertisement
دوائی لینے کا ماہر نکلنا
دلہن نے بتایا:
“وہ مجھے ہر رات کو دوائی دیتا، کہتا سکوج ملے گا، کہیں ڈراو نہیں ہوگا۔ میں نے مانا، یہ میری سہاگ رات ہے، کیا سمجھوں؟”
لیکن احتیاط سے اس نے سوالات بڑھائے اور ڈیٹا جمع کیا۔ اسے لگا کہ دوائی صرف محبت یا آرام کے لیے دی جا رہی ہے، لیکن جب اثرات محسوس ہوئے — ذہنی الجھن، سونے میں دشواری، توانائی میں کمی — تو اسے خطرہ نظر آیا۔
شبہ سے حقیقت تک: پولیس مداخلت
کچھ دنوں بعد دلہن نے پولیس کو مطلع کیا۔ وہ کہتی تھی کہ ہر رات دوائی سے وہ بے ہوش، حد سے زیادہ نرم مزاج یا خواب والے حالت میں چلی جاتی تھی:
- غیریقینی احساسات
- تیز دل کی دھڑکن
- یادداشت میں خلا
- گھبراہٹ اور بےچینی
پولیس نے تحقیقات شروع کیں۔ ہومی میڈ لیبارٹریز میں لی گئی نمونوں کی جانچ سے معلوم ہوا کہ اس میں کچھ زیادہ مقدار میں درپیش منشیات مکس تھیں — شاید نشہ آور یا نیند آور کیمیکل۔
پولیس نے دولہا کو حراست میں لیا اور سسرال کی کچھ ہوم سائیکل لیب کی تلاشی لی۔
دلہن کا بیان
عدالت اور پولیس میں دلہن نے اپنی پہلی بیٹھک میں کہا:
“میں نے کبھی سوچا نہ تھا کہ شادی کے بعد سکون کے نام پر مجھے اپنی مرضی سے محروم کرنا پڑے گا۔ یہ میرا حق تھا کہ میں جانے کے بعد کیا ہو رہا ہے؟”
اس نے واضح کیا کہ کسی بھی صورت میں اس نے دوائی لینے سے انکار نہیں کیا، لیکن جب اس نے احساس کیا کہ یہ سادہ سر درد یا اعلیٰ معالجہ کے نامزد نہیں بلکہ ایک منظم اقدام تھا، تو اسے ہمت ہوئی۔
قانونی پہلو اور سماجی نتائج
دولہا پر درج الزامات میں یہ شامل ہیں:
- غیر اخلاقی جسمانی زیادتی (non-consensual drugging)
- بیماری یا شاخضیت کا شعوری اضافہ
- سیکیورٹی و تحفظ میں کوتاہی
قانونی ماہرین کے مطابق:
- "قانونی نظریہ سے شادی کسی صورت رضامندی کا متبادل نہیں بن سکتی۔”
- "سہاگ رات کے دوران رضامندی نہ ہونا، اخلاقی اور قانونی طور پر جرم کے دائرے میں آتا ہے۔”
عدالتی کارروائی تیزی سے جاری ہے۔ پولیس نے دولہا کو طبی معائنے کے بعد ماہر نفسیات کی روانگی کے ساتھ تفتیش کے لیے حراست میں رکھا۔
ہماری سماج میں اثرات
یہ واقعہ نہ صرف ایک فرد کا مسئلہ ہے بلکہ ہم سب کے لیے ایک نشانی ہے:
- شادی میں مکمل شراکتداری کا حق- ہر فرد کو اپنی مرضی سے دوائی لینے یا نہ لینے کا حق حاصل ہے، چاہے یہ سہاگ رات ہی کیوں نہ ہو۔
 
- ذہنی اور جسمانی تحفظ- ذمہ داری والدین، خاندان، حکومت، اور اپنی ذات کی ہے کہ ضمانت دیں کہ ہر شادی شدہ جوڑے کو بلا خوف اور دباؤ کے زندگی بسر کرنے کا حق حاصل ہو۔
 
- قانونی تعلیمات- ہمیں اپنی آئین و قانون سے مطلع رہنا چاہیے کہ کسی بھی صورت میں کسی کو نشہ دینے یا بے ہوش کرنے کا حق نہیں۔ یہ نفسیاتی، طبی اور قانونی سطح پر جرم ہے۔
 
یہ داستان ہمیں یاد دہانی کراتی ہے کہ محبت، رشتہ، شادی اور اعتماد کا مطلب دوستی، احترام، اور مرضی کی آزادی ہے۔
دلہن کے بیان نے پولس اور عدلیہ کو امنگ دی کہ ہر فرد کو اس کی جسمانی عظمت، آزادی اخلاق، جذباتی سلامتی کا پورا حق دینا ہماری ذمہ داری ہے۔ جو بھی قانونی فیصلہ آئے، یہ واقعہ ہمارے معاشرے کے لیے سبق ہے:
- ریاست کا فرض کہ وہ ہر فرد کے قانون و انصاف کی آواز بنے۔
- ثقافتی آئینہ کہ ہم رشتوں میں شراکت، خود ارادیت کا احترام کریں۔
- اور آخر میں، ہر دلہن کو یہ حق ہے: شادی کے بعد بھی اپنی مرضی، عزت، اور خوشی کے ساتھ زندگی گزارنے کا۔
 

 

 اردو
اردو				 English
English