Advertisement
وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے غزہ کے معاملے پر نکالے گئے احتجاجی مارچ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ
"لڑائی مک گئی اے، گھر جاؤ۔”
یہ بیان انہوں نے مذہبی جماعتوں کی جانب سے پاکستان کے مختلف شہروں میں نکالے گئے غزہ مارچ کے پس منظر میں دیا۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ اب جب کہ جنگ بندی ہو چکی ہے، ایسے احتجاجات غیر ضروری اور حالات کو مزید کشیدہ بنانے والے ہیں۔
Advertisement
پس منظر
حالیہ دنوں میں مختلف مذہبی و سیاسی جماعتوں نے فلسطین کے عوام سے اظہارِ یکجہتی کے لیے غزہ مارچ کا اعلان کیا۔ ان مظاہروں کا مقصد اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز بلند کرنا اور عالمی برادری کو فلسطین کی حالتِ زار کی طرف متوجہ کرنا تھا۔ تاہم حکومت کے بعض حلقوں نے ان مارچوں کو سیاسی مقاصد سے جوڑتے ہوئے ان پر تنقید کی۔
Advertisement
خواجہ آصف کا مؤقف
- احتجاج پر تنقید:
 خواجہ آصف نے کہا کہ اب جب کہ "لڑائی ختم ہو چکی ہے”، احتجاج کی کوئی ضرورت نہیں۔ ان کے مطابق ایسے اجتماعات عوامی جذبات کو مشتعل کرتے ہیں اور ریاستی نظم و ضبط پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
- قانونی و ریاستی مفاد:
 ان کا کہنا تھا کہ ایسے مارچ ملک کے استحکام کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی یا مذہبی جذبات کی آڑ میں ریاستی اداروں کو کمزور کرنے کی کوشش نہیں ہونی چاہیے۔
- معلوماتی ابہام:
 خواجہ آصف نے مزید کہا کہ ممکن ہے بعض لوگوں کو حالات کی مکمل معلومات نہ ہوں، اس لیے وہ احتجاج میں شامل ہو گئے ہوں۔ تاہم اب جنگ بندی کے بعد ایسی سرگرمیوں کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔
عوامی و سیاسی ردعمل
- تحریکِ انصاف کے رہنماؤں نے خواجہ آصف کے بیان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عوام کو پرامن احتجاج کا آئینی حق حاصل ہے، اسے محدود کرنا آزادیٔ اظہار پر قدغن کے مترادف ہے۔
- کچھ سیاسی مبصرین نے اس بیان کو غیر محتاط قرار دیا اور کہا کہ حکومت کو عوامی جذبات کے احترام کے ساتھ پالیسی وضاحت کرنی چاہیے۔
- مذہبی جماعتوں نے کہا کہ فلسطین کے عوام کے لیے آواز اٹھانا ہر مسلمان کا اخلاقی اور انسانی فریضہ ہے، اور اسے سیاسی بیانات سے کمزور نہیں کیا جانا چاہیے۔
Also read :افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کا دارالعلوم دیوبند کا دورہ، پولیس کا لاٹھی چارج
تجزیہ
خواجہ آصف کا یہ بیان ملکی سیاسی ماحول میں ایک نئی بحث کو جنم دے رہا ہے — کیا احتجاج کا حق بین الاقوامی معاملات تک محدود ہونا چاہیے؟
بعض ماہرین کے مطابق، پاکستان جیسے جمہوری ملک میں ایسے احتجاج شہری شعور اور انسانی ہمدردی کا اظہار ہیں، بشرطیکہ وہ پرامن اور قانون کے دائرے میں ہوں۔
ڈسکلیمر:
یہ خبر دستیاب رپورٹس اور معتبر ذرائع کی بنیاد پر پیش کی گئی ہے۔ قارئین سے گزارش ہے کہ تازہ ترین معلومات کے لیے سرکاری یا مستند نیوز چینلز سے تصدیق کریں۔
 

 

 اردو
اردو				 English
English