Advertisement
اسلام آباد:
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اندرونی اختلافات ایک بار پھر منظرِ عام پر آگئے ہیں۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی اور پارٹی کے صوبائی صدر جنید اکبر کے درمیان بیانات کے تبادلے نے پارٹی کے اندر ہلچل مچا دی ہے۔ پارٹی کی اعلیٰ قیادت ان اختلافات پر گہری تشویش کا اظہار کر رہی ہے، جبکہ سینئر رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو پارٹی کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے جارحانہ بیانات
ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی نے حالیہ اجلاس میں صوبائی تنظیم کے کردار پر کھلے عام تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی کے اندر بعض عناصر تنظیمی ڈھانچے کو کمزور کر رہے ہیں اور ذاتی مفادات کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق "پارٹی نظم و ضبط” کو برقرار رکھنے کے لیے سخت اقدامات ضروری ہیں تاکہ کارکنوں کا اعتماد بحال ہو۔
Advertisement
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ سہیل آفریدی کے بیانات پارٹی کے اندر بڑھتی بے چینی کی عکاسی کرتے ہیں۔ بعض ارکان اسمبلی بھی اس رائے سے متفق ہیں کہ پارٹی کے اندر اختلافی گروپ اب کھل کر سامنے آ رہے ہیں۔
Advertisement
جنید اکبر کا ردِعمل
دوسری جانب، پی ٹی آئی خیبر پختونخوا کے صدر جنید اکبر نے وزیراعلیٰ کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ تنظیم پارٹی کی ریڑھ کی ہڈی ہے اور اس پر انگلی اٹھانا دراصل پارٹی کے ڈھانچے کو کمزور کرنا ہے۔
انہوں نے ایک بیان میں کہا:
"ہم سب چیئرمین عمران خان کے وژن پر متفق ہیں، لیکن ذاتی مفادات کے لیے پارٹی ڈسپلن کو نقصان پہنچانا کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔”
ان کے مطابق، تنظیمی فیصلے مشاورت کے ذریعے کیے جاتے ہیں، اور اگر کوئی فرد ان فیصلوں سے اختلاف رکھتا ہے تو اسے پارٹی فورم پر اظہار کرنا چاہیے، نہ کہ عوامی سطح پر۔
قیادت کی تشویش اور خاموش رابطے
پارٹی کے سینئر رہنماؤں نے ان دونوں بیانات پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ مرکزی قیادت نے دونوں رہنماؤں سے رابطے کیے ہیں تاکہ معاملے کو مزید بڑھنے سے روکا جا سکے۔
ذرائع کے مطابق، چیئرمین عمران خان نے بھی پارٹی کے اعلیٰ عہدیداروں سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔ پارٹی کے اندر ایک کمیٹی بنانے کی تجویز بھی زیر غور ہے جو اختلافات کے اسباب اور ممکنہ حل پر سفارشات پیش کرے گی۔
اندرونی اختلافات کا ممکنہ اثر
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق، پی ٹی آئی پہلے ہی عدالتی مقدمات، سیاسی دباؤ اور تنظیمی مسائل کا سامنا کر رہی ہے۔ ایسے میں اندرونی اختلافات پارٹی کی عوامی مقبولیت اور آئندہ انتخابات کی تیاریوں پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں پارٹی کی حکومت کے باوجود انتظامی اور سیاسی سطح پر عدم ہم آہنگی نے گورننس کے معیار کو متاثر کیا ہے۔
Also read: جنرل (ر) احسان الحق کا انکشاف: عبدالسلام ضعیف کو پاکستان نہیں بلکہ افغانستان نے امریکا کے حوالے کیا
سینئر رہنماؤں کا مصالحتی کردار
اطلاعات کے مطابق پارٹی کے کچھ سینئر رہنما دونوں گروپوں کے درمیان مصالحتی کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان میں سابق وفاقی وزراء اور مرکزی قیادت کے قریبی ارکان شامل ہیں جو اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ پارٹی کے اندرونی معاملات کو میڈیا کے بجائے پارٹی فورمز پر حل کیا جائے۔
ایک سینئر رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا:
"پارٹی کو اس وقت اتحاد کی ضرورت ہے، نہ کہ تقسیم کی۔ اختلافات کسی بھی جمہوری جماعت میں ہوتے ہیں، مگر انہیں سنجیدگی سے حل کرنا قیادت کی ذمہ داری ہے۔”
سیاسی مبصرین کی رائے
تجزیہ کاروں کے مطابق، پی ٹی آئی کے اندر اس وقت دو بڑے نظریاتی دھڑے سرگرم ہیں — ایک تنظیمی فیصلوں پر عملدرآمد کا حامی، جبکہ دوسرا صوبائی حکومت کے اثرورسوخ کو اہم سمجھتا ہے۔ اگر یہ اختلافات حل نہ ہوئے تو پارٹی کی انتخابی مہم متاثر ہو سکتی ہے۔
مزید برآں، مبصرین کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں پارٹی کے لیے عوامی تاثر کو بہتر بنانا سب سے بڑا چیلنج ہے، کیونکہ عوام تنظیمی خلفشار کے بجائے کارکردگی دیکھنا چاہتے ہیں۔
نتیجہ
پی ٹی آئی کے اندر حالیہ اختلافات نے واضح کر دیا ہے کہ پارٹی کو نہ صرف بیرونی بلکہ اندرونی چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔ اگر قیادت نے بروقت اور دانشمندانہ فیصلے نہ کیے تو یہ اختلافات آئندہ انتخابات سے قبل مزید شدت اختیار کر سکتے ہیں۔ تاہم، اگر مصالحتی کوششیں کامیاب ہو گئیں تو یہ بحران پارٹی کے لیے ایک موقع بھی ثابت ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی تنظیمی کمزوریوں کو درست کرے اور متحد ہو کر سیاسی میدان میں اترے۔
ڈسکلیمر:
یہ خبر دستیاب رپورٹس اور مستند ذرائع کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے۔ قارئین سے گزارش ہے کہ تازہ ترین معلومات کے لیے سرکاری یا معتبر نیوز ذرائع سے بھی تصدیق کر لیں۔
 

 

 اردو
اردو				 English
English