Advertisement
حال ہی میں چین کی حکومت نے براہماپترا دریا پر ایک بڑے ہائیڈروپاور ڈیم کی تعمیر کا آغاز کر دیا ہے، جس کے بعد بھارت میں شدید تشویش کی لہ دوڑ گئی ہے۔ یہ منصوبہ نہ صرف ماحولیاتی اور اقتصادی لحاظ سے خطے کے لیے اہم ہے بلکہ جغرافیائی سیاسی (Geo-Political) لحاظ سے بھی دونوں ہمسایہ ایٹمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی کا باعث بن سکتا ہے۔
براہماپترا دریا کا تعارف
براہماپترا دریا، جسے تبت میں "یالو زانگبو” کہا جاتا ہے، چین کے تبت کے علاقے سے نکلتا ہے اور بھارت کے ریاست اروناچل پردیش، آسام سے ہوتا ہوا بنگلہ دیش میں جا کر گنگا سے مل جاتا ہے۔ یہ دریا لاکھوں لوگوں کے لیے پانی، زراعت، اور ماہی گیری کا ذریعہ ہے۔ اس کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ اس پر کسی بھی قسم کا منصوبہ علاقائی سطح پر بڑے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔
Advertisement
چین کا منصوبہ اور اس کی تفصیلات
چین نے اعلان کیا ہے کہ اس نے تبت کے علاقے میں براہماپترا دریا پر ایک میگا ہائیڈروپاور ڈیم کی تعمیر شروع کر دی ہے۔ یہ منصوبہ تبت کے مدھیا علاقے میں واقع "مدونگ” مقام پر تعمیر کیا جا رہا ہے، جو بھارت کی سرحد کے قریب ہے۔ یہ ڈیم چین کی حکومت کے تحت چلنے والی کمپنی "چائنا سدرن پاور گرڈ” کی زیر نگرانی بنایا جا رہا ہے۔
Advertisement
چین کا دعویٰ ہے کہ اس منصوبے کا مقصد صاف توانائی (green energy) کی فراہمی اور ملک کے جنوبی علاقوں میں بجلی کی قلت کو پورا کرنا ہے۔ ڈیم کی مجوزہ صلاحیت 60 گیگاواٹ تک بتائی جا رہی ہے، جو دنیا کے سب سے بڑے پن بجلی منصوبوں میں سے ایک ہوگی۔
Also read : پاکستان اور آذربائیجان کے درمیان ٹرین سروسز کا آغاز: ایک نئے تجارتی دور کا آغاز
بھارت کی تشویش
بھارت نے چین کے اس اقدام پر سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ ڈیم کی تعمیر سے بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں میں پانی کی فراہمی متاثر ہو سکتی ہے، خاص طور پر اروناچل پردیش اور آسام، جہاں کاشتکاری اور روزمرہ زندگی کا دارومدار بڑی حد تک براہماپترا پر ہے۔
بھارت کو اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ چین مستقبل میں اس ڈیم کو ایک اسٹریٹجک ہتھیار کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔ یعنی پانی کے بہاؤ کو روک کر یا اچانک چھوڑ کر بھارت میں سیلاب یا خشک سالی کی کیفیت پیدا کی جا سکتی ہے۔
جغرافیائی سیاست پر اثرات
چین اور بھارت کے درمیان سرحدی تنازعات پہلے ہی موجود ہیں، جن میں سب سے اہم لداخ اور اروناچل پردیش کے مسائل ہیں۔ 2020 میں گلوان وادی میں ہونے والی جھڑپیں اس کشیدگی کا مظہر تھیں۔ ایسے میں چین کا یہ نیا آبی منصوبہ ان تنازعات کو مزید ہوا دے سکتا ہے۔
یہ بھی قابل ذکر ہے کہ چین جنوبی ایشیا میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (BRI) کے تحت کئی ممالک میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ بھارت پہلے ہی اس منصوبے پر تحفظات کا اظہار کر چکا ہے۔ براہماپترا پر ڈیم کی تعمیر سے چین کے خطے میں اثر و رسوخ میں اضافہ ہوگا، جسے بھارت اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔
ماحولیاتی اثرات
ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ ایسے بڑے ڈیمز کے ماحولیاتی اثرات شدید ہوتے ہیں۔ دریاؤں کے قدرتی بہاؤ میں رکاوٹ ڈالنے سے نہ صرف مقامی حیاتیاتی نظام (ecosystem) متاثر ہوتا ہے بلکہ نیچے کی طرف واقع علاقوں میں پانی کی سطح میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔
براہماپترا ایک ایسا دریا ہے جو اپنے طاقتور بہاؤ اور طغیانی کے لیے مشہور ہے۔ اگر اس کا بہاؤ تبدیل کیا گیا تو یہ نہ صرف آس پاس کے علاقوں کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے بلکہ بنگلہ دیش جیسے نچلے درجے کے ممالک میں بھی اس کے اثرات پڑ سکتے ہیں۔
سفارتی سطح پر کوششیں
بھارت نے چین سے باضابطہ طور پر اس منصوبے کی تفصیلات طلب کی ہیں۔ بھارتی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ بھارت ایسے کسی بھی اقدام کے خلاف ہے جو سرحد پار دریاؤں پر یک طرفہ ہو۔ چین کی جانب سے تاحال اس پر مکمل وضاحت نہیں دی گئی۔
عالمی ماہرین اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ ایسے معاملات کو سفارتی مکالمے کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔ جنوبی ایشیا میں پانی کے وسائل پر مستقبل میں مزید تنازعات کا امکان موجود ہے، اس لیے بین الاقوامی ضوابط اور معاہدوں کی پابندی نہایت ضروری ہے۔
براہماپترا دریا پر چین کی جانب سے ڈیم کی تعمیر نے نہ صرف بھارت بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے لیے ایک نیا مسئلہ کھڑا کر دیا ہے۔ اس اقدام سے ماحولیاتی، اقتصادی، اور جغرافیائی سیاسی خدشات نے جنم لیا ہے۔ بھارت اور چین کے درمیان اس نازک معاملے کو اگر باہمی افہام و تفہیم سے حل نہ کیا گیا تو یہ خطے میں پانی کی جنگ کی صورت اختیار کر سکتا ہے، جو کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہوگی۔
یہ وقت ہے کہ دونوں ممالک بین الاقوامی قوانین اور باہمی معاہدوں کی روشنی میں مسئلے کا پرامن حل تلاش کریں تاکہ نہ صرف علاقائی استحکام برقرار رہے بلکہ کروڑوں افراد کے پانی کے حقوق بھی محفوظ رہیں۔
 

 

 اردو
اردو				 English
English