ہومٹرینڈنگحمیرا اصغر کی والدہ کا ’’نامناسب‘‘ بیان؛ شمعون عباسی نے آئینہ دکھا...

حمیرا اصغر کی والدہ کا ’’نامناسب‘‘ بیان؛ شمعون عباسی نے آئینہ دکھا دیا

Advertisement

پاکستانی شوبز انڈسٹری میں ایک اور تنازع اُبھرا ہے جب مرحومہ اداکارہ حمیرا اصغر علی کی والدہ نے کراچی کے عوام پر سخت اور جذباتی الزامات عائد کیے، جن کے فوری بعد شمعون عباسی نے سخت تنقید کرتے ہوئے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا۔ اُن کے اس بیان نے والدین کی ذمہ داریوں اور سوشل میڈیا پر جذباتی اشتعال انگیزی پر ذریعہ بحث پیدا کیا ہے۔

واقعہ کی مکمل تفصیل

حمیرا اصغر علی کی والدہ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ “کراچی کے لوگوں کو بے حس اور بے درد پایا”۔ ان کے مطابق:

Advertisement

  • حمیرا کے فلیٹ سے چیخ و پکار کی آوازیں آتی رہتی تھیں مگر کسی نے دروازہ نہیں کھٹکھٹایا۔
  • کراچی کے لوگ اپنی زندگیوں میں مصروف تھے، سیر و تفریح کرتے رہے۔
  • انھوں نے غصے میں کہا، “میں لعنت بھیجتی ہوں کراچی کے لوگوں پر” ۔

یہ بیان سوشل میڈیا پر وائرل ہوا اور صارفین نے والدہ کی جانب سے والدین کی ذمہ داریوں سے غفلت اور دیگر افراد پر بلاجواز الزام عائد کرنے پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا۔

Advertisement

Also read : جرمنی کا نیا فری لانس ویزا حاصل کریں، فیس صرف 2800 روپے

شمعون عباسی کا ردعمل

اداکار شمعون عباسی نے ایک ویڈیو پیغام میں حمیرا کی والدہ کے اس بیان پر زوردار جواب دیا:

  • انہوں نے کہا کہ “اپنی ذمہ داریوں سے بچنے کے لیے کسی اور پر الزام لگانا آسان ہے” ۔
  • شمعون کا کہنا تھا کہ والدین کی ذمہ داری تھی کہ وہ اپنی بیٹی کا خیال رکھتے:
    • اگر مالی مشکلات تھیں تو رشتہ داروں یا متعلقین کو کراچی بھیج کر بیٹی کی خیریت معلوم کی جا سکتی تھی۔
    • پولیس سے مدد لی جا سکتی تھی، لیکن انہیں ہر صورت دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانا تھا ۔
  • انھوں نے مزید کہا کہ “بیٹی آپ کی تھی، قربت آپ کے ساتھ تھی، پھر ذمہ دار کون تھا؟” ۔
  • شمعون عباسی نے واضح کیا کہ بہت سے شوبز افراد اور این جی اوز والدین کے انکار کی صورت میں حمیرا کی تدفین اور رسومات کا خود انتظام کرنے کو تیار تھے۔ یہ باقاعدہ منصوبہ بندی تھی، نہ کہ محض گفتگو

انہوں نے کہا کہ:

“تنہائی میں مرنے والوں کی اصل ذمہ داری خاندان پر ہوتی ہے، پورے شہر پر ۔

پس منظر

  • حمیرا اصغر علی کا ڈھائی ماہ قبل دفاع فیز 6 کراچی میں واقع رہائشی عمارت کی بلوک سے سقوط کر کے انتقال ہوا۔
  • کراچی پولیس نے اطلاع دی کہ اداکارہ کا والد کراچی آ کر لاش وصول کرنے سے انکار کر چکا ہے، اور بیٹی سے ان کا ڈیڑھ سے دو سال قبل رابطہ منقطع ہو چکا تھا
  • حمیرا نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں اپنی والدین کے حوالے سے ایک انٹرویو بھی دیا تھا، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ والدین نے ان کی زندگی میں کسی حد تک سپورٹ کی۔ وہ گھر میں اکثر دیر سے آتی تھیں اور ان کے والد والدانہ رویے کے باوجود انہیں فخر سے دیکھتے تھے ۔

تنقید، بحث اور عوامی ردِ عمل

  • سوشل میڈیا صارفین نے شدید تنقید کی کہ:
    1. والدین ابتدائی طور پر بیٹی کا ساتھ دینے میں ناکام رہے۔
    2. وہ اپنی ذمہ داری سے فرار ہو کر ایک پورے شہر پر الزام لگا رہے ہیں۔
    3. والدین کے انکار پر شوبز شخصیات اور سماجی ادارے مدد کرنے کو تیار تھے۔
  • بعض لوگوں نے لکھا: “اگر والدین خاموش رہ سکتے تھے تو وہ سوشل میڈیا مہم کیوں شروع کرتے ہیں؟”
    “بیٹی کی مدد چھوڑ دو، والدین کی اپنی ذمہ داری پہ تو توجہ نہیں دی”۔

شمعون عباسی کا پیغام

شمعون عباسی نے اس زوردار بیان کے ذریعے درج ذیل نکتوں پر توجہ مبذول کرائی:

  1. والدین کی پہلی و آخری ذمہ داری: بیٹی کا خیال رکھنا، اس کی مدد کرنا اور اس کا ساتھ دینا ان کا بنیادی فرض تھا۔
  2. ذمہ داری سے فرار: والدین مشکلات کی صورت میں دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانا آسان انتخاب لیتے ہیں۔
  3. ممکنہ مدد کا راستہ: شوبز شخصیات، این جی اوز، پولیس – تمام سے تعاون کیا جا سکتا تھا۔
  4. شہری ذمہ داری کا معاملہ: ایک فرد کی تنہائی یا مشکل دیکھ کر پورے شہر کو موردِ الزام ٹھہرانا غیر مناسب ہے۔
  5. عطیہ و تنظیمات: حمیرا کی تدفین کے انتظامات والدین کے انکار کی صورت میں کیے جانے کو تیار تھے، لیکن والدین نے خود ہی راہ نہیں دی۔

اجتماعی غور و فکر

یہ واقعہ ایک اجتماعی سوال بھی اٹھاتا ہے کہ:

  • کیا کنبہ ہو کر قریب ترین افراد پہلی توجہ دیں یا باہر سے مداخلت کی جائے؟
  • جب والدین خاموش رہ جائیں، تو سماجی دھکا کیسے بڑھتا ہے؟
  • شمعون عباسی جیسے اشخاص کا عوامی اور اخلاقی استدلال اس بحث میں کس حد تک کارگر ہو سکتا ہے؟

شمعون عباسی کا مؤقف ہے کہ دکھ کا اظہار جائز ہے، لیکن الزام تراشی سے قبل عزت و ذمہ داری کا احساس ضروری ہے۔ شہر یا معاشرے کو مورد الزام ٹھہرانا آسان ہے، لیکن سچائی کا آئینہ خود ogledنے کا وقت یہی ہے۔

حمیرا اصغر کی والدہ کا بیان سوشل میڈیا پر بھڑکا ہوا جذباتی اظہار تھا لیکن والدین کی ابتدائی خاموشی اور اس کے بعد بلاجواز الزام نے بحث کو شدید بنا دیا۔ شمعون عباسی نے ایک بامعنی، عملی اور اخلاقی مؤقف پیش کیا کہ:

  • ذمہ داریاں پہلے خود سنبھالی جائیں۔
  • مدد کے مواقع بروقت طلب کیے جائیں۔
  • اور جذباتی انتقام میں پورے شہر کو قصوروار نہ ٹھہرایا جائے۔

یہ واقعہ ایک ناملائم اعتصاب کا آئینہ ہے کہ انسانی جذبات کب کیسے روشنی بھی دیتے ہیں اور دھوکے بھی۔ لیکن حقیقت کا سفر تب ہی ممکن ہے جب ہر ایک اپنی جگہ ذمہ داری کی راہ پر کھڑا ہو۔

اختتامیہ: اس واقعے نے ہمیں عبرت دی کہ جذباتی بیانات عارضی سُرور کا باعث ہوتے ہیں، لیکن اصل سوال یہ ہے: اصولی اور اخلاقی ذمہ داری کون بھرتا ہے – شہرت میں گفتگو یا حقیقت میں کردار؟

ریلیٹڈ آرٹیکل

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

سب سے زیادہ مقبول

urاردو