ہومٹرینڈنگسعودی عرب کے سلیپنگ پرنس الولید بن خالد انتقال کر گئے: ایک...

سعودی عرب کے سلیپنگ پرنس الولید بن خالد انتقال کر گئے: ایک طویل بے ہوشی کا افسوسناک اختتام

Advertisement

سعودی عرب کے مشہور شہزادے، شہزادہ الولید بن خالد بن طلال، جنہیں عوام میں "سلیپنگ پرنس” (Sleeping Prince) کے نام سے جانا جاتا تھا، بالآخر ایک طویل بے ہوشی کی حالت کے بعد انتقال کر گئے۔ ان کی عمر تقریباً 37 برس تھی۔ وہ گزشتہ 19 برسوں سے کومہ میں تھے، جس کے باعث ان کا نام دنیا کے طویل ترین بے ہوشی میں رہنے والے افراد کی فہرست میں شامل ہو چکا تھا۔

شہزادے کی کہانی: زندگی کا رخ بدل دینے والا حادثہ

شہزادہ الولید بن خالد 2005 میں ایک کار حادثے کا شکار ہوئے، جب وہ امریکہ میں اپنی تعلیم کے دوران گاڑی چلا رہے تھے۔ یہ حادثہ اتنا شدید تھا کہ ان کے دماغ کو شدید نقصان پہنچا، جس کے بعد وہ کوما میں چلے گئے۔ اس وقت ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ ان کے بچنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں اور انہیں مصنوعی تنفس کے ذریعے زندہ رکھا جائے گا۔

Advertisement

تاہم، ان کے والد شہزادہ خالد بن طلال، جو سعودی شاہی خاندان کے ایک معروف رکن ہیں، نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے بیٹے کو وینٹی لیٹر سے ہٹانے کے بجائے قدرتی طور پر اس کی زندگی کی بقا کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے اپنے بیٹے کے لیے ایک مکمل میڈیکل سیٹ اپ قائم کیا اور 24 گھنٹے نرسنگ کی سہولت مہیا کی۔

Advertisement

سلیپنگ پرنس: ایک قومی ہمدردی کی علامت

شہزادہ الولید کو "سلیپنگ پرنس” کا لقب اس وقت دیا گیا جب سوشل میڈیا پر ان کی ویڈیوز اور تصاویر وائرل ہونے لگیں، جن میں انہیں ہسپتال کے بیڈ پر لیٹے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔ ان کی دیکھ بھال کرنے والے اہلِ خانہ وقتاً فوقتاً ان کی صحت کے متعلق اپڈیٹس دیتے رہتے تھے۔ ان ویڈیوز میں بعض اوقات ان کے ہاتھ یا جسم میں معمولی حرکت بھی دیکھنے میں آتی تھی، جسے خاندان نے امید کی کرن قرار دیا۔

سعودی عوام اور دیگر عرب ممالک کے شہریوں نے سلیپنگ پرنس کے لیے ہمدردی، دعاؤں اور نیک تمناؤں کا اظہار مسلسل جاری رکھا۔ ہر سال ان کے یومِ حادثہ پر سوشل میڈیا پر خصوصی دعاؤں اور پیغامات کی بھرمار ہوتی رہی۔

والد کا عزم: زندگی کی قدر کی مثال

شہزادہ خالد بن طلال نے بارہا میڈیا پر اس بات کا ذکر کیا کہ وہ اپنے بیٹے کو اس وقت تک زندہ رکھیں گے جب تک کہ قدرتی موت نہ آجائے۔ ان کا یہ عزم نہ صرف ایک باپ کی محبت کی عظیم مثال تھا بلکہ انسانی زندگی کی اہمیت پر ایک گہری روشنی بھی ڈالتا ہے۔

انہوں نے بارہا کہا:
"ہم اس وقت تک الولید کی دیکھ بھال کرتے رہیں گے جب تک اللہ چاہے۔ اگر خدا نے چاہا تو وہ جاگ جائے گا۔ ہم امید اور دعا کے ساتھ اسے نہیں چھوڑ سکتے۔”

Also read:حمیرا اصغر کی والدہ کا ’’نامناسب‘‘ بیان؛ شمعون عباسی نے آئینہ دکھا دیا

موت کی خبر: ایک دور کا اختتام

2025 میں جولائی کے تیسرے ہفتے میں شہزادہ الولید بن خالد کے انتقال کی خبر منظرِ عام پر آئی۔ ان کے خاندان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا:
"الولید بن خالد بن طلال کا انتقال ہو گیا ہے، جو اللہ کی مرضی تھی۔ ہم اللہ کے فیصلے پر راضی ہیں۔”

ان کے انتقال کی خبر نے نہ صرف سعودی عرب بلکہ پوری عرب دنیا میں دکھ کی لہر دوڑا دی۔ سوشل میڈیا پر عوام، مشہور شخصیات، اور سرکاری حکام نے ان کی طویل بیماری کے دوران خاندان کی قربانیوں کو سراہا اور ان کے لیے دعائے مغفرت کی۔

عوامی ردعمل: دعاؤں اور خراج تحسین کا سلسلہ

شہزادے کے انتقال کے بعد "سلیپنگ پرنس” ٹرینڈ کرتا رہا۔ صارفین نے ان کے والد کی ثابت قدمی، ماں کی دعاؤں اور خاندان کی مسلسل کوششوں کو خراج تحسین پیش کیا۔ مختلف صارفین نے لکھا:

  • "یہ صرف ایک شہزادے کی کہانی نہیں، بلکہ والدین کی امید، صبر اور محبت کی تاریخ ہے۔”
  • "الولید بن خالد اب جاگ گئے، ہمیشہ کے لیے۔ اللہ انہیں جنت نصیب فرمائے۔”

اخلاقی و انسانی سبق

شہزادہ الولید کی زندگی اور ان کی طویل بے ہوشی نے عالمی سطح پر کئی سوالات اٹھائے۔ کیا ایک فرد کو وینٹی لیٹر پر برسوں زندہ رکھنا چاہیے؟ کیا امید رکھنا بے معنی تھا؟ ان تمام سوالات کے بیچ، ان کے والد کا رویہ، خاندان کی قربانیاں اور عوام کی ہمدردی اس بات کی گواہ ہیں کہ انسانی جذبے، صبر اور دعا کی طاقت کتنی بڑی ہو سکتی ہے۔

اختتامی کلمات

شہزادہ الولید بن خالد بن طلال کی زندگی اور موت ایک علامت بن چکی ہے—ایک ایسی علامت جو امید، ہمدردی، قربانی اور انسانی رشتوں کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔ سلیپنگ پرنس اب ابدی نیند سو چکے ہیں، مگر ان کی کہانی ہمیشہ زندہ رہے گی۔

اللہ تعالیٰ شہزادہ الولید کو اپنی رحمتوں میں جگہ عطا فرمائے، اور ان کے والدین اور خاندان کو صبر جمیل دے۔ آمین۔

ریلیٹڈ آرٹیکل

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

سب سے زیادہ مقبول

urاردو