ہومانٹرٹینمنٹمیرے مرنے پر جس نے آنا ہے آئے، جس نے نہیں آنا...

میرے مرنے پر جس نے آنا ہے آئے، جس نے نہیں آنا وہ نہ آئے: نادیہ افگن نے کیوں کہی یہ بات؟

Advertisement

تعارف: کیا غم کا لمحہ بھی ایک سماجی ذمہ داری ہے؟


پاکستانی شوبز انڈسٹری کی معروف سینئر اداکارہ نادیہ افگن، جو اپنے ڈراموں میں اکثر ماں کا کردار ادا کرتی ہیں، نے حال ہی میں ایک جذباتی اور تلخ حقیقت پر روشنی ڈال کر سوشل میڈیا پر ہلچل مچا دی ہے۔ ان کی یہ بات معاشرتی رسم و رواج اور دکھ کے لمحات میں مہمان نوازی کے غیر ضروری دباؤ کی عکاسی کرتی ہے۔

نادیہ افگن نے فوٹوز اینڈ ویڈیوز شیئرنگ پلیٹ فارم انسٹاگرام پر ایک اسٹوری شیئر کی، جس میں انہوں نے واضح ہدایت کی کہ جب وہ مروں گی تو ان کے جنازے میں کسی کو کھانا نہیں کھلایا جائے گا۔ یہ ایک ایسا بیان ہے جو پاکستانی معاشرے کی ایک دیرینہ روایت پر سوال کھڑا کرتا ہے۔

Advertisement

نادیہ افگن کی وصیت: جنازے میں کھانے پر پابندی کی ہدایت


سینئر اداکارہ نادیہ افگن نے اپنی انسٹاگرام اسٹوری میں صاف الفاظ میں اپنی آخری خواہش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ یہ ہدایت کر کے مروں گی کہ میرے مرنے پر رسمی طور پر کھانا نہیں کھلایا جائے گا۔

Advertisement

انہوں نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:

"جس نے آنا ہے آئے، جس نے نہیں آنا وہ نہ آئے: نادیہ افگن”

یہ بیان ان لوگوں کے لیے ایک واضح پیغام ہے جو کسی کے انتقال پر محض کھانے یا سماجی دباؤ کے تحت تعزیت کے لیے آتے ہیں۔ اداکارہ اس بات پر زور دے رہی ہیں کہ غم کے لمحات صرف مرنے والے کے خاندان اور قریبی لوگوں کے لیے وقف ہونے چاہئیں۔

والد کے انتقال کا تلخ تجربہ جس نے ‘جھنجھوڑ کر رکھا’


نادیہ افگن کا یہ جذباتی فیصلہ کسی اچانک خیال پر مبنی نہیں ہے بلکہ یہ ان کے ابو کے انتقال کے وقت کے ایک تلخ تجربے کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے لکھا کہ وہ واقعہ انہیں سب سے زیادہ جھنجھوڑ کر رکھا گیا۔

واقعے کی تفصیلات:

ابو کے انتقال کے فوراً بعد، کالونی کے انچارج ان کے پاس آئے۔

انچارج نے یہ سوال کیا کہ "کرسیاں، ٹینٹ اور کھانا کہاں سے کروانا ہے؟”

اداکارہ نے لکھا کہ دکھ اور دباؤ کے عالم میں وہ رات گئے تک صرف مہمان نوازی میں مصروف رہیں اور لوگوں سے یہی پوچھتی رہیں کہ "کیا آپ نے کھانا کھایا ہے، کیا آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہے؟”

اس لمحے کی تفصیلات سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ غم کی شدت کے بجائے، توجہ سماجی رسمی طور پر، جیسے کرسیاں، ٹینٹ اور کھانا کے انتظام پر مرکوز ہو جاتی ہے، جس سے غمزدہ خاندان کو مزید دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

معاشرتی روایت پر سوال: دکھ پر مہمان نوازی کا دباؤ


نادیہ افگن کا بیان دراصل پاکستانی معاشرے کی اس تلخ حقیقت پر ایک طاقتور تبصرہ ہے جہاں موت کے بعد بھی مہمان نوازی ایک سماجی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ مذہبی طور پر جنازے کا مقصد میت کے لیے دعا اور اہل خانہ سے تعزیت کرنا ہوتا ہے، مگر عملی طور پر یہ رسم و رواج میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

Also Read ; پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان ٹی20 سیریز، ٹرافی کی شاندار رونمائی

یہ رسم دباؤ کا باعث کیوں بنتی ہے؟

مالی بوجھ: غمزدہ خاندان پر غیر ضروری طور پر کھانا اور دیگر لوازمات کا مالی بوجھ پڑتا ہے۔

غم کا ثانوی درجہ: اہل خانہ کو اپنے پیاروں کے انتقال کا غم منانے کے بجائے، آنے والوں کی مہمان نوازی پر توجہ مرکوز کرنی پڑتی ہے۔

غیر متعلقہ حاضری: بہت سے لوگ صرف رسمی طور پر کھانا کھانے یا سماجی رابطے برقرار رکھنے کے لیے جنازے میں شرکت کرتے ہیں۔

سینئر اداکارہ کی یہ آواز دراصل ان تمام لوگوں کی نمائندگی کرتی ہے جو اس دباؤ کو غیر ضروری سمجھتے ہیں۔

نتیجہ: نادیہ افگن کی بصیرت اور ایک نئی سوچ کی ضرورت


نادیہ افگن نے اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر ایک اہم سماجی مسئلہ اجاگر کیا ہے۔ ان کی یہ ہدایت لوگوں کو اس بات پر غور کرنے کی دعوت دیتی ہے کہ وہ موت اور جنازے کے موقع پر تعزیت کے اصل مقصد کو ترجیح دیں نہ کہ مہمان نوازی کی رسومات کو۔ وہ اپنے فنکارانہ کردار (ماں کا کردار) کی طرح ہی سماجی مسائل پر بھی واضح موقف رکھتی ہیں۔


Disclaimer


ڈس کلیمر: یہ خبر سینئر اداکارہ نادیہ افگن کی سوشل میڈیا (انسٹاگرام اسٹوری) پر کی گئی ذاتی پوسٹ اور بیانات پر مبنی ہے۔ قارئین کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ مکمل سیاق و سباق کے لیے اصل سورس کا بھی جائزہ لیں اور یہ جانکاری صرف معلوماتی مقصد کے لیے ہے۔

ریلیٹڈ آرٹیکل

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

سب سے زیادہ مقبول

urاردو