Advertisement
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی نے حالیہ بیان میں اس وقت نئی بحث چھیڑ دی جب انہوں نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ “میرے آفس میں سب آئیں گے تو کور کمانڈر بھی آئیں گے۔” ان کا یہ بیان سپریم کورٹ کے باہر اس وقت سامنے آیا جب وہ صحافیوں کے سوالات کے جوابات دے رہے تھے۔
سہیل آفریدی نے واضح کیا کہ کور کمانڈر پشاور ان سے ملاقات کے لیے صرف مبارکباد دینے آئے تھے، اور یہ ایک رسمی اور شائستہ ملاقات تھی۔ انہوں نے کہا کہ وہ صوبے کے چیف ایگزیکٹو ہیں، لہٰذا تمام ادارے اور اعلیٰ عہدیداران ان کے آفس میں آئیں تو یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔
Advertisement
کور کمانڈر پشاور کی ملاقات کا پس منظر
ذرائع کے مطابق، کور کمانڈر پشاور اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے درمیان ہونے والی ملاقات میں صوبے کی سیکیورٹی صورتحال، ترقیاتی امور اور سول-ملٹری تعلقات پر بات چیت کی گئی۔ سہیل آفریدی نے اس موقع پر کہا کہ صوبائی حکومت اور سیکیورٹی ادارے ایک ہی مقصد کے لیے کام کر رہے ہیں — امن و استحکام۔
Advertisement
انہوں نے مزید کہا کہ “پاکستان کے اندر کسی بھی صوبے میں سول حکومت اور اداروں کے درمیان تعاون ملک کی سلامتی کے لیے ضروری ہے۔ کور کمانڈر کا آنا کسی سیاسی مقصد کے لیے نہیں بلکہ قومی مفاد میں بات چیت کے لیے تھا۔”
سیاسی تناظر اور ردِعمل
سہیل آفریدی کے بیان کے بعد مختلف سیاسی حلقوں میں بحث شروع ہو گئی۔ اپوزیشن جماعتوں نے ان کے بیان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے بیانات سے سول-ملٹری تعلقات پر سوال اٹھائے جا سکتے ہیں۔ تاہم، صوبائی حکومت کے ترجمان نے وضاحت کی کہ وزیراعلیٰ نے صرف آئینی اور انتظامی اصولوں کے مطابق بات کی ہے۔
ترجمان کے مطابق، “وزیراعلیٰ نے کسی تنازعے یا تفریق کی بات نہیں کی، بلکہ انہوں نے واضح کیا کہ بطور چیف ایگزیکٹو وہ سب کے ساتھ ادارہ جاتی تعلقات قائم رکھنا چاہتے ہیں۔”
Also read:پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا امکان
آئینی بحران پر وزیراعلیٰ کا مؤقف
سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سہیل آفریدی نے کہا کہ “پاکستان میں اس وقت آئینی بحران پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کریں۔”
انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا حکومت آئین و قانون کے مطابق فیصلے کر رہی ہے اور عدلیہ کے تمام احکامات پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کو مزید سیاسی تنازعات میں الجھنے کے بجائے استحکام اور ترقی کی طرف بڑھنے کی ضرورت ہے۔
سول اور عسکری اداروں کے درمیان تعاون پر زور
سہیل آفریدی نے زور دیا کہ صوبے کی ترقی کے لیے سول اور عسکری اداروں کا ایک پیج پر ہونا ناگزیر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “خیبرپختونخوا جیسے حساس صوبے میں امن و امان کے قیام کے لیے سیکیورٹی اداروں کا کردار قابلِ تحسین ہے۔ ہم ان کی قربانیوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔”
انہوں نے کہا کہ حکومت ہر ممکن کوشش کرے گی کہ عوام کو بہتر سہولیات فراہم کی جائیں، ترقیاتی منصوبے تیزی سے مکمل ہوں، اور صوبے میں سرمایہ کاری کے مواقع بڑھیں۔
عوامی ردِعمل اور سوشل میڈیا پر بحث
سوشل میڈیا پر سہیل آفریدی کے بیان پر مختلف آراء سامنے آئیں۔ کچھ صارفین نے ان کے مؤقف کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ نے آئینی دائرہ کار میں رہ کر بات کی ہے، جبکہ دیگر نے ان پر تنقید کی کہ انہیں عسکری قیادت سے ملاقاتوں کو زیادہ نمایاں نہیں کرنا چاہیے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سہیل آفریدی کا یہ بیان ایک سیاسی پیغام بھی ہے — کہ وہ خود کو صوبے کے بااختیار چیف ایگزیکٹو کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔
نتیجہ
سہیل آفریدی کا بیان بظاہر ایک عام وضاحت تھی، لیکن اس نے ملک میں جاری سول-ملٹری تعلقات پر ایک نئی بحث کو جنم دے دیا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اس طرح کے بیانات سے عوام میں اعتماد بحال کرنے میں مدد مل سکتی ہے، بشرطیکہ ادارے ایک دوسرے کے دائرہ کار کا احترام کریں۔
ڈسکلیمر:
یہ خبر مختلف ذرائع اور معتبر رپورٹس کی بنیاد پر پیش کی گئی ہے۔ قارئین سے گزارش ہے کہ تازہ ترین اور درست معلومات کے لیے سرکاری اور مستند نیوز آؤٹ لیٹس سے تصدیق ضرور کریں۔
 

 

 اردو
اردو				 English
English