ہومٹرینڈنگسب انسپکٹر کی ڈاکو کے ساتھ مل کر ڈکیتی کی واردات کی...

سب انسپکٹر کی ڈاکو کے ساتھ مل کر ڈکیتی کی واردات کی اندرونی کہانی سامنے آ گئی

Advertisement

لاہور کے علاقے شاہدرہ میں ایک بڑی واردات کا انکشاف ہوا ہے جس میں پولیس فورس کا حصہ خود ملوث نکلا۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق، سب انسپکٹر عمار نے ایک شناسا ڈاکو علی رضا کے ساتھ مل کر ڈکیتی کی وارداتیں کیں، اور واردات کے بعد فرار ہونے کے لیے رہنمائی بھی فراہم کی۔

پولیس نے 8 کلومیٹر کے علاقے میں تقریباً 2500 نگرانی کیمروں کا جائزہ لیا، جن کی مدد سے لاجپت روڈ کے علاقے تک پہنچا گیا جہاں علی رضا کی شناخت ہوئی۔ وہاں سے علی رضا کو گرفتار کیا گیا، اور تفتیش کے دوران اس کے بیان نے حکام کو سب انسپکٹر عمار کی جانب ہدایت کی۔

Advertisement

دورانِ تفتیش علی رضا نے پولیس کو بتایا کہ عمار نے اسے کراچی اور پھر عراق جانے کا مشورہ دیا اور موبائل سم تبدیل کرنے کی ہدایت بھی کی تھی تاکہ سراغ لگانا مشکل ہو جائے۔ اس کے علاوہ، انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ عمار نے واردات کی منصوبہ بندی میں براہِ راست حصہ لیا اور واردات کے بعد تعاون کیا۔

Advertisement

پولیس نے علی رضا اور عمار کے مابین ہونے والی کال ریکارڈ کی جس میں علی رضا نے انھیں تھانہ شاہدرہ آنے کا کہا تھا، اور اس کال کے فوری بعد عمار کو گرفتار کیا گیا۔ دونوں ملزمان کو فوری طور پر کریم انویسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ (CCD) کے حوالے کر دیا گیا ہے، اور مزید تفتیش جاری ہے۔

Also read:پشاور میں غیرقانونی ایل پی جی بھرائی اور کٹ ورکشاپس پر پابندی عائد

اس واردات نے عدلیہ اور پولیس فورس کی شبیہ پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ ایک سچ یہ ہے کہ وہی ادارہ جس کا کام شہریوں کے تحفظ کا ہے، اس بار خود ایک ذمہ دار کے ذریعے قانون شکن سرگرمیوں میں ملوث تھا۔ عوام اور تجزیہ کار اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ ایسے واقعات سے کیسے نمٹا جائے، اور پولیس کے اندر احتساب کا نظام کس حد تک فعال ہے۔

یہ صورتحال اس بات کا عندیہ دیتی ہے کہ جرائم پیشہ عناصر نہ صرف پولیس کے اندر رہنماؤں سے رابطے رکھتے ہیں، بلکہ بعض اوقات خود پولیس اہلکار ہی انہیں مدد فراہم کرتے ہیں۔ اس کیس میں، عمار نے نہ صرف واردات کی سازش اور معاونت کی بلکہ بعد ازاں فرار کی راہ ہموار کرنے کی ہدایت بھی دی۔ اس کا مطلب ہے کہ پولیس کی نگرانی اور اندرونی کنٹرول میکینزمز میں شدید خامیاں موجود ہیں۔

اگرچہ تفتیش ابھی جاری ہے، مگر اس واقعہ نے یہ واضح کیا ہے کہ ادارہ جاتی شفافیت اور سروس رکن کی ذمہ داری میں کمی شہریوں کے اعتماد کو کمزور کرتی ہے۔ اس کے علاوہ، اس طرح کے کیسز سے یہ سبق ملتا ہے کہ پولیس اور تفتیشی عمل میں جدید ٹیکنالوجی اور نگرانی کے نظام کو فعال بنانا ضروری ہے، تاکہ اندرونی عناصر کی مداخلت کا وقت پر علم ہو سکے۔

مزید یہ کہ، عوام کو بھی احتیاط برتنا ہو گی اور ایسی سرگرمیوں کی اطلاع دینے کے لیے فوراً رابطہ کرنا ہو گا۔ ساتھ ہی پاسداریِ قانون اور ادارہ جاتی اصلاحات کے لیے اجتماعی کردار ادا کرنا ضروری ہے۔ اس واردات کا خاتمہ ایک سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے، اگر اس سے سبق نکالا جائے اور مستقبل میں ایسے واقعات کے تدارک کے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں۔


Disclaimer: اس خبر میں پیش کی گئی معلومات دستیاب رپورٹس اور معتبر ذرائع کی بنیاد پر ہیں۔ قارئین سے گزارش ہے کہ سرکاری نیوز آؤٹ لیٹس سے تازہ ترین معلومات کی تصدیق کر لیں۔

ریلیٹڈ آرٹیکل

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

سب سے زیادہ مقبول

urاردو