Advertisement
چٹاگانگ کی شام اور احتجاج کی کہانی
19 اکتوبر کی شام، ڈھاکا کے جنوب مشرقی شہر چٹاگانگ میں فضا کچھ مختلف تھی۔ درجنوں نہیں بلکہ سیکڑوں طلبہ اور شہری سڑکوں پر نکل آئے۔ ان کا مقصد تھا بنگلہ دیش میں چینی حمایت یافتہ تیسٹا منصوبے کے خلاف احتجاج کرنا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ حکومت نے اس منصوبے کے حوالے سے عوام کو اندھیرے میں رکھا ہے، جبکہ اس کے ماحولیاتی اور معاشی اثرات واضح طور پر سامنے نہیں لائے گئے۔
تیسٹا منصوبہ کیا ہے؟
’تیستا منصوبہ‘ دراصل بنگلہ دیش کے شمالی علاقوں میں واقع تیستا دریا کے پانی کو ذخیرہ اور بہتر طریقے سے استعمال کرنے کا ایک بڑا منصوبہ ہے۔ چین نے اس میں قرض، تکنیکی معاونت اور تعمیراتی مدد فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے۔ منصوبے کا مقصد سیلابی پانی کو محفوظ بنانا اور خشک موسم میں فصلوں کے لیے پانی کی فراہمی یقینی بنانا ہے۔
Advertisement
لیکن اس منصوبے کی جغرافیائی اور سیاسی اہمیت اسے صرف ایک ترقیاتی پروجیکٹ نہیں رہنے دیتی — یہ بھارت، چین اور بنگلہ دیش کے درمیان علاقائی اثر و رسوخ کی جنگ میں ایک اہم کارڈ بن چکا ہے۔
Advertisement
Also read :ڈریسنگ روم میں مذہبی کلچر: محمد رضوان کو کپتانی سے ہٹانے کی اصل وجہ کیا تھی؟
بھارت اور تیسٹا دریا کا تنازعہ
تیستا دریا بھارت کے مغربی بنگال سے نکلتا ہے اور بنگلہ دیش میں داخل ہو کر خلیج بنگال میں گرتا ہے۔ بنگلہ دیش کا مؤقف ہے کہ بھارت خشک موسم میں اس دریا کا زیادہ تر پانی روک لیتا ہے، جس سے لاکھوں کسان متاثر ہوتے ہیں، کھیت سوکھ جاتے ہیں اور زراعت کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔
اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان پانی کی تقسیم کا معاہدہ کئی سالوں سے زیرِ غور ہے، لیکن بھارتی ریاستی سیاست خصوصاً مغربی بنگال کی قیادت کی مخالفت نے اسے بارہا تعطل کا شکار بنایا۔
چین کی انٹری اور بھارت کی تشویش
جب بنگلہ دیش نے چین سے مدد لینے کا فیصلہ کیا تو نئی دہلی میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ بھارت کے اسٹریٹجک ماہرین کے مطابق، چین تیسٹا منصوبے کے ذریعے نہ صرف بنگلہ دیش میں اپنا اثر بڑھا رہا ہے بلکہ یہ قدم جنوبی ایشیا میں بیجنگ کے بڑھتے ہوئے معاشی و جغرافیائی اثرات کی ایک اور مثال ہے۔
چین پہلے ہی پاک چین اقتصادی راہداری (CPEC)، نیپال اور سری لنکا میں بڑے منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔ تیسٹا منصوبے میں شمولیت بھارت کے لیے ایک سفارتی اور جغرافیائی دباؤ کا باعث بن سکتی ہے۔
عوامی خدشات اور ماحولیاتی تحفظ
بنگلہ دیشی عوام، خاص طور پر نوجوان طبقہ، تیسٹا منصوبے کے ماحولیاتی اثرات پر تشویش کا اظہار کر رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دریا کے قدرتی بہاؤ میں مداخلت سے ماحولیاتی توازن بگڑ سکتا ہے، جبکہ چینی سرمایہ کاری کے نتیجے میں قرضوں کا بوجھ بھی بڑھ سکتا ہے۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر منصوبہ مکمل شفافیت کے بغیر آگے بڑھایا گیا تو بنگلہ دیش مستقبل میں معاشی انحصار کے جال میں پھنس سکتا ہے — جیسا کہ سری لنکا کے ہمبنٹوٹا بندرگاہ کے معاملے میں دیکھا گیا۔
بھارت کے لیے خطرے کی گھنٹی
یہ احتجاج اور چینی شمولیت بھارت کے لیے خطرے کی گھنٹی سمجھی جا رہی ہے۔ ایک طرف بھارت بنگلہ دیش کے ساتھ تجارتی اور دفاعی تعلقات مضبوط بنانے کی کوشش کر رہا ہے، دوسری طرف چین وہاں اپنی مالی و تکنیکی موجودگی مستحکم کر رہا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اگر تیسٹا منصوبہ چین کی مدد سے مکمل ہوا تو یہ جنوبی ایشیا میں بیجنگ کے سفارتی اثرات کو مزید تقویت دے گا، جس سے بھارت کی علاقائی بالادستی کو چیلنج درپیش ہوگا۔
نتیجہ
تیستا منصوبہ صرف ایک آبی منصوبہ نہیں بلکہ جنوبی ایشیائی سیاست کا نیا محاذ بن چکا ہے۔ بنگلہ دیش کا احتجاج ظاہر کرتا ہے کہ عوام شفافیت، خودمختاری اور ماحولیاتی تحفظ کے حق میں ہیں۔ لیکن ساتھ ہی، یہ معاملہ بھارت کے لیے ایک سفارتی چیلنج بن گیا ہے، جو اسے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات ازسرِنو دیکھنے پر مجبور کر رہا ہے۔
ڈسکلیمر (Disclaimer)
یہ خبر مستند ذرائع اور معتبر رپورٹس کی بنیاد پر پیش کی گئی ہے۔ قارئین کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ تازہ ترین اور تصدیق شدہ معلومات کے لیے سرکاری یا معتبر نیوز چینلز سے بھی رجوع کریں۔
 

 

 اردو
اردو				 English
English